Skip to content

About Diabetes: Learn Now ذیابیطیس سے آگاہی

  • by

Justuju Meda

نومبر 14, 2009 کو دنیا میں ذیابیطیس کی آگاہی کا دن منایا جارہا ہے۔

صرف پاکستان میں ایک محتاط اندازہ کے مطابق 80,000 افراد سالانہ اس مرض کی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کرجاتے ہیں۔ اور اس کا بنیادی سبب اس مرض کے بارے میں معلومات کی کمی ہے۔

ذیابیطیس جو عام طور پر پہلے صرف بڑی عمر میں لاحق ہوتا تھا، اب زندگی کی سہولیات اور آسانیاں بڑھ جانے ، تیز رفتار چربیلے کھانوں، اور جسمانی زور و مشقوں کی کمی کی وجہ سے جوانوں اور بچوں تک کو لاحق ہورہا ہے۔


Please use Ctrl+ Keys to Increase the font display size
To obtain a PDF version of this essay, you can send an email to: justujumedia@gmail.com

http://wrestlingdiabetes.blogspot.com


پیارے دوستو، سلام


نومبر 14, 2009 کو دنیا میں ذیابیطیس کی آگاہی کا دن منایا جارہا ہے۔

صرف پاکستان میں ایک محتاط اندازہ کے مطابق 80,000 افراد سالانہ اس مرض کی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کرجاتے ہیں۔ اور اس کا بنیادی سبب اس مرض کے بارے میں معلومات کی کمی ہے۔

ذیابیطیس جو عام طور پر پہلے صرف بڑی عمر میں لاحق ہوتا تھا، اب زندگی کی سہولیات اور آسانیاں بڑھ جانے ، تیز رفتار چربیلے کھانوں، اور جسمانی زور و مشقوں کی کمی کی وجہ سے جوانوں اور بچوں تک کو لاحق ہورہا ہے۔

اس مرض کی وجوہات، اور اس سے نمٹنے کے لیے پرائمری کلاس کے بچوں کی سطح سے لے کر یونی ورسٹیوں تک تعلیم اور آگاہی کی ضرورت ہے۔

اس سلسلہ میں جستجو میڈیا نے عوامی خدمت کے لیے ایک ویب سائٹ تیار کی ہے، جسے آپ ضرور وزٹ کریں۔

http://wrestlingdiabetes.blogspot.com

مندرجہ ذیل دل چسپ مضمون ہماری اسی ویب سائٹ سے ماخوذ ہے۔ اس کے لکھاری مشہور و معروف مزاح نگار ادیب ڈاکٹر عابد معز ہیں۔ انھوں نے ایک معرکتہ الآرا کتاب، “ذیابیطیس کے ساتھ ساتھ” اردو میں تحریر کی ہے۔ ہماری متذکرہ ویب سائٹ اسی کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے، اور انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔

اب اس سمع خراشی کے بعد، آپ ڈاکٹر عابد معز کا یہ مضمون پڑھیں اور لطف اٹھائیں۔

شوگر برادری

ڈاکٹر عابد معز، ریاض

چند دن پہلے میں ایک ڈنر پر مدعو تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر مختلف اقسام کے کھانے چنے گئے تھے اور احباب پرتکلف عشائیہ اڑارہے تھے لیکن ایک صاحب ساتھ بیٹھے تو تھے لیکن کھا کچھ نہیں رہے تھے۔ پلیٹ میں دو ایک اشیا ڈال کر ادھر ادھر لوگوں کو حسرت سے کھاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں میزبان کا گزر ہوا اور وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ میزبان نے انھیں ہاتھ روکا ہوا پایا تو وہیں ٹھہر گئے اور مختلف اشیا ان کی پلیٹ میں ڈال کر تکلف برتنے کی وجہ دریافت کی۔ مہمان کچھ دیر ٹالتے رہے لیکن جب اصرار بڑھا توانھوں نے بتایا۔ ’دراصل میں کھانے سے پہلے کھانے کی شوگر کی گولی بھول آیا ہوں۔ اس لیے احتیاط کررہا ہوں۔‘
میزبان نے جواب میں کہا۔’آپ نے خواہ مخواہ تکلف کیا۔ پہلے بتاتے اب تک گولی کا انتظام ہوگیا ہوتا۔ خیر اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ محفل میں کئی ’شوگر بھائی‘ موجود ہیں ان کے پاس سے آپ کی گولی برآمد ہوجائے گی بلکہ میں خود آپ کا شوگر بھائی ہوں لیکن میں انجکشن لیتا ہوں۔ آپ کو انجکشن تو نہیں چاہیے؟‘
’نہیں۔‘ مہمان نے جواب دیا۔ ’مجھے آپ اپنا چھوٹا بھائی سمجھیں۔ میں صبح اور شام کھانے سے پہلے ایک گولی لیتا ہوں۔‘
میزبان اور مہمان کی گفتگو سن کر تیسرے شوگر بھائی نے شوگر کی گولی کا کچھ بھلا سا نام لے کر آفر دیا۔ ’آپ فلاں دوا تو استعمال نہیں کرتے، وہ میرے پاس ہے۔‘
’نہیں، میرے ڈاکٹر نے فلاں گولی لکھی ہے۔ ‘ مہمان نے اپنی گولی کا نام بتایا۔
’یہ گولی میں بھی کھاتا ہوں۔ بہت اچھی دوا ہے۔ لیکن صرف صبح میں ۔‘ چوتھے شوگر برادر نے اطلاع دے کر معذرت چاہی۔ ’معاف کرنا اس وقت میرے ساتھ نہیں ہے۔‘
’کوئی بات نہیں، میرے پاس آپ دونوں کی گولی ہے۔‘ پانچویں شوگر بھائی نے مسئلہ حل کردیا۔ ’میں صبح، دوپہر اور شام ایک گولی استعمال کرتا ہوں اور ہر وقت یہ گولیاں میری جیب میں پڑی رہتی ہیں۔‘
مہمان نے گولی کھائی اور ڈنر سے انصاف کرنے لگے۔ میزبان شوگر بھائی کو توقع کے مطابق شوگر کی گولی کا انتظام ہوگیا تو انھوں نے سینہ پھلاکر کہا۔ ’ہماری برادری میں اضافہ ہورہا ہے۔اب ہم پہلے جیسے کم کم نہیں رہے۔ ‘
شوگر بھائی بہت صحیح فرماتے ہیں۔ چالیس پچاس برس پہلے شوگر کا مرض اتنا عام نہیں تھا جتنا اب ہے۔ اس وقت کسی کسی کو یہ مرض ہوتا تھا۔ مریض کھاتے پیتے اور صاحب ثروت ہوتے تھے، گویا شوگر کا مرض اسٹیٹس سمبل تھا۔ بڑے لوگ بڑے فخر سے کہتے تھے کہ مجھے شوگر ہے۔ لیکن اب یہ مرض ہرکس وناکس کو ہونے لگا ہے۔ جنس کی تخصیص ہے اور نہ عمر کی قید، جسے دیکھیے شوگر تیارکرتا دکھائی دیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ شوگر کا مریض بیمار بھی ہو یا بیمار جیسا نظر آئے۔ بظاہر صحت مند شخص شوگر میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ میں نے ایک توانا اور تندرست شخص سے مل کر اس کی صحت کی تعریف کی تو اس نے انکشاف کیا۔ ’اچھی صحت کہاں اور کس کی ہے صاحب، دو سال سے بندہ شوگر کا کیس ہے۔‘
شکایات نہ ہونے سبب پچاس فیصد سے زیادہ ’بغیر تشخیص یافتہ‘ مریض ہیں۔ یعنی انھیں یہ نہیں معلوم کہ ان کا تعلق شوگر برادری سے ہے۔ اسی لیے کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ کسے شوگر ہے اور کسے شوگر نہیں ہے۔ خون کا معائنہ ہی فیصلہ صادر کرتا ہے کہ کون شوگر کا مارا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شوگر ہر کسی کے خون میں دوڑتی رہتی ہے جو انھیں دوڑائے رکھنے میں معاون ہے۔ جب کسی کے اندر شوگر حد سے زیادہ بڑھنے لگتی ہے توشوگر کا مرض لاحق ہوتا ہے۔
شوگر برادری کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں ہے، کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ۔ لیکن ہمارا تجربہ اور ماہرین کے جمع شدہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ شوگر برادری میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ میں نے چند دن پہلے اخبار میں پڑھا تھا کہ شوگر برادری میں اضافہ ماہرین کی پیش قیاسی سے تیس چالیس فیصد زیادہ تیز ہے۔ حتمی طور پر نہیں معلوم کہ اس اضافے اور شوگر بھائی بننے کی وجوہات کیا ہیں۔ ماہرین خوب اٹکلیں لگاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہماری ترقی اس کی اہم وجہ ہے۔ ترقی ہمیں زیادہ غذا مہیا کررہی ہے اور ہم خوب کھاکر شوگر بھائی بننے کے لیے تیار ہورہے ہیں۔ ترقی ہمیں آرام طلب، آلسی اور فربہ بنارہی ہے۔ ہم پیدل چلنا بھولتے جارہے ہیں۔ کم کام اور زیادہ آرام کرناشوگر بھائی بناتا ہے۔ ٹیلی وژن بھی ہمیں کئی طریقوں سے شوگر بھائی بناتا ہے۔شوگر بھائی بننے کی وجوہات کے بارے میں جاننے لگتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ خود اپنے دام میں گرفتار ہوکر ہم شوگر بھائی بنتے جارہے ہیں۔
شوگر بھائی بننا یا شوگر کا مرض اتنا عام ہے کہ اب بچے اور نوجوان تک اس سے متاثر ہیں ۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی عاقل و بالغ یہ کہے کہ مجھے شوگر نہیں ہے تو حیرت کے ساتھ شک ہوتا ہے کہ اسے شکر کیوں نہیں ہے۔ ڈاکٹر یقین کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔مختلف سوالات کرکے تفتیش کرنے لگتے ہیں۔ یوں بھی ڈاکٹر سے جب کوئی رجوع ہوتا ہے تو نام عمر وغیرہ کے بعد کیاجانے والا سوال یہی ہوتا ہے کہ کیا آپ شوگر بھائی ہیں؟ اگر کسی نے کہا ہے تو پھر ڈاکٹر کی توجہ دوسری شکایات پر مرکوز ہوتی ہے وگرنہ ڈاکٹر مزید کریدنے لگتے ہیں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو شوگر نہیں ہے۔ آپ نے آخری بار شوگر کا معائنہ کب کروایا تھا۔ آپ کے خاندان میں کس کو شوگر ہے۔ آپ کا وزن کم تو نہیں ہورہا ہے۔ کیا بار بار پیشاب آتا ہے۔ کیا آپ جلد تھک جاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ سوالات کے جوابات پاکر مطمئن نہیں ہوتے، اطمینان کرنے کے لیے معائنہ تجویز کرتے ہیں۔ معائنے سے اگر شوگر بھائی بن گئے تو فاتحانہ انداز میں کہتے ہیں۔ ’میں نہ کہتا تھا، آپ کو شوگر ہے۔‘
اگر کوئی معائنے میں ’شوگر فری‘ ثابت ہوا تو حیرت کا اظہار ہوتا ہے۔ ’تعجب ہے، آپ خوش قسمت ہیں۔ احتیاط کیجیے۔ کبھی بھی شوگر ہوسکتی ہے۔ دوچار مہنیے بعد پھر معائنہ کروایے ۔‘ اورآخر،جلد یادیر صحت مند شخص کو شوگر برادری میں شامل کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ اس میں بے چارے ڈاکٹر کا کوئی قصور نہیں ہے، موجودہ حالات شوگر بھائی چارگی کے لیے موافق ہیں۔

٭ ٭ ٭
HASHIM SYED MOHAMMAD BIN QASIM
Justuju Media

Researcher, Writer, Publisher, Sociologist, ICT and O&D Consultant
Current Affairs Analyst, Radio Islam International, Johannesburg, South Africa

Justuju Media Projects جستجو میڈیا کے پراجیکٹس

کاش میں جانتا: امن و سلامتی کے اسباق
Coming up soon on the pattern of …
llis.gov
of US State Department of Homeland Security

The Legend of Akhgar
http://akhgars.blogspot.com/
A Tribute to American Sufi Urdu Poet
Sayyid Mohammad Hanif Akhgar Maleehabadi

American Humor
http://justuju-americanhumour.blogspot.com/
The Best of American Humour Brought to You in Urdu

Saudi Arabia: Discovering its Soul
http://zargrifth.blogspot.com/
Based on a legendary book about Saudi Arabia “Zar Grifth”

Canadian Urdu Poetry – Kulliyaate Ashar
http://justuju-kulliyaateashar.blogspot.com/
Beautiful Poems / Ode of Syed
Mohammad Munif Ahaar Malihabadi
Toronto Canada

Kalaame Musavvir
http://mosawwerhomepage.blogspot.com/
Maulana Musavvir’s Poetry Rediscovered
Urdu Poetry from early 20th Century

Wrestling Diabetes
http://wrestlingdiabetes.blogspot.com/
Ziabetes Kay Saath Saath
Dr. Abid Moiz’s Landmark Urdu Book on Diabetes Presented
by Justuju

Leave a Reply