Skip to content

جیالا برگر

 

طاہر عمران

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

عزیز برگر کلاس کے لوگو، سکائپ، وائبر اور وٹس ایپ کے حوالے سے معذرت۔ ہمیں کچھ عرصے کے لیے معافی چاہیے جب (یہ سب سہولیات بند ہوں گی) تاکہ ہم کچھ دہشت گرد پکڑ سکیں۔ اگلے تین مہینے کے لیے صرف ایس ایم ایس پر اکتفا کریں۔ آپ کا مخلص بلاول بھٹو زرداری

یہ وہ ٹویٹ تھی جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے مابین رابطے ختم کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر بات چیت کی مقبول ایپلیکشنز سکائپ، وائبر اور ٹینگو پر تین ماہ کی پابندی کی حمایت کی۔

اس ٹویٹ نے جہاں جلتی پر تیل کا کام کیا وہیں اس پابندی کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہوئی جس میں ایک طرف سندھ کی حکومت پر شدید تنقید کی گئی وہیں برگر کلاس کے لفظ کے استعمال پر لوگوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔

اس ٹویٹ کے بعد رابیل میمن نے لکھا کہ ’خیبر پختونخوا اور سندھ میں ہمارے تمام منصوبے براہِ راست رابطے کے لیے سکائپ استعمال کرتے ہیں۔ اسے امیر طبقے تک محدود کرنا نادانی ہے‘۔

یہ بات یہیں تک محدود نہیں رہی اور پاکستان بھر کے سوشل میڈیا پر ’وائبر، ’واٹس ایپ‘، ’سکائپ‘ اور شرجیل میمن ٹرینڈ کرتے رہے۔ سب سے نمایاں ٹرینڈ کرنے والے الفاظ میں ’ٹیررسٹ سکائپ آئی ڈی‘ تھا جس کا مطلب ہے دہشت گردوں کی سکائپ آئی ڈی۔

پاکستان میں انٹرنیٹ اور انسانی حقوق کی ترویج کے لیے کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے فرحان حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سال کے دوران یہ انسانی حقوق اور عام آدمی کی آزادیوں پر قدغن لگانے کی سب سے بدترین کوشش ہے۔ اور یہ تصور کے اسے ایک مخصوص طبقہ استعمال کرتا ہے بالکل جہالت ہے کیونکہ یہ کاروباری طبقے سے لے کر عام گھریلو خواتین تک سب استعمال کرتے ہیں۔‘

فرحان نے کہا کہ ’اس اقدام سے عام آدمی کی سکیورٹی پر بہت بڑی زد پڑی ہے جو پہلے ہی بے جا پابندیوں کی زد میں ہے۔ موبائل پر پابندی آئے روز لگتی رہتی ہے اور اس کی غیر موجودگی میں یہ ایک عام اور مفت کی سہولت ہے مگر اسے بھی عوام سے چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ماہر منصور ذیب خان نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ’حکومت کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے وہ ان ایپلیکیشنز پر ہونے والی گفتگو کو ڈی کوڈ کر سکے اور حالیہ دنوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلیکمیونیکشن کی وزیر نے ایک نئے مرکز کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے دو سو ستر کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے وہ ایسے معاملات کی نگرانی کر سکے گی‘۔

تجزیہ کار مشرف زیدی نے اپنی ٹویٹس میں لکھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اب حکمت عملی یہی ہے کہ اس نے لاڑکانہ کی تین نشستیں حاصل کرنی ہیں۔ اور یہ کہ پتھر کے زمانے میں رحمان ملک کی جانب سے موبائل فون کے استعمال پر لگائی جانے والی پابندیاں ان کی سوچ نہیں بلکہ پیپلز پارٹی میں موجود کلچر کی جانب نشاندہی کرتی ہے۔

مشرف زیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کو ایک فیصلہ اندرونی طور پر کرنا ہو گا جو مجھے لگتا ہے کہ کیا جا چکا ہے اور وہ یہ فیصلہ ہے کہ پارٹی نے مستقبل میں کس ڈگر پر چلنا ہے کیا یہ اپنی اصولی سیاست کرے گی یا صرف الیکشن جیتنے کی سیاست کرے گی‘۔

منصور زیب خان نے بتایا کہ ’مجھے یہ لگتا ہے کہ اس سیاسی مسئلے کی آڑ میں ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے جن کے کاروبار پر ان ایپلیکیشنز سے زد پڑتی ہے۔‘

مشرف زیدی نے بھی اسی مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی تعداد شہریوں کی ایسی ہے جو صرف شہروں کی حد تک محدود نہیں اور جو ایک اہلیت والی ریاست میں رہنا چاہتے ہیں۔ اگر ایک شدت پسند گروہ شیعہ جلوس پر حملے کرنے کا منصوبے بنا رہا ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ اس گروہ کے خلاف کارروائی کی جائے نہ کہ پابندیاں لگا کہ عام شہریوں کی زندگی مشکل بنائی جائے۔‘

بلاول بھٹو نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں اس پابندی کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں ایک ایپلیکشن کھولنا پسند کروں گا نہ کہ ایک اور انسانی جان۔ اوریہ کہ میں سخت فیصلوں کی حمایت کرتا ہوں جن کی مدد سے حکومت کراچی کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

مشرف زیدی کے مطابق ’ایک مختلف پاکستان تشکیل پا رہا ہے اور پیپلز پارٹی کو اور بلاول اور آضفہ بھٹو کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے اپنے والے پاکستان کے لیے کام کرنا ہے یا انکلوں والے پاکستان کے لیے۔ جیسے بھارت میں راہول گاندھی نے ایک فیصلے کی سرِ عام مخالفت کی جس فیصلے کے حق میں ان کی جماعت کے وزیر اعظم اور دوسرے رہنما تھے تو بلاول کو بھی یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے انکلز کی باتوں کی حمایت کرنی ہے یا ایک بدلتے پاکستان کی آواز سننی ہے۔‘

اس ساری صورتحال میں پاکستانی ٹوئٹر کے صارفین نے ٹوئٹر پر بلاول بھٹو زرداری کی برگر والی ٹویٹ کا خوب توا لگایا۔ اگر آپ اس وقت ٹوئٹر پر پاکستان میں سب سے اوپر ٹرینڈ کرنے والی لفظ پر نظر ڈالیں گے تو وہ ہے ’برگر ان مویز نیمز‘ یعنی فلموں کے ناموں میں برگر کی اضافت۔

جہاں برگر کئی انواع اور اقسام کے ہوتے ہیں وہیں تاریخ میں یہ ایک نیا جیالا برگر اپنی جگہ خود بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

صنم تاثیر نے بلاول بھٹو زرداری کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹویٹ کی جس میں پاسٹر نیمو کے مشہور الفاظ کو ردوبدل سے لکھا کہ ’وہ وائبر بند کرنے آئے تو میں نہیں بولا، پھر وہ ٹوئٹر بند کرنے آئے تو میرے حق میں بولنے کے لیے کوئی نہیں بچا تھا‘۔


http://www.bbc.co.uk/urdu

Leave a Reply